ڈاکٹر مورس کے دو حدیثوں پر اعتراض کا جواب

ایک دوست کی طرف سے یہ مضمون موصول ہوا مجھے تو بہت اچھا لگا آپ بھی پڑھ لیجیئے

ڈاکٹر مورس بکائیے نے ’’صحیح بخاری‘‘ کی ایسی سو روایات کا انتخاب کیا، جن سے کسی نہ کسی طور سائنسی پہلو نکلتا تھا۔ بعد ازاں ان روایات کو سائنسی معیارات پر جانچ کر اسے ایک مقالے کی صورت دی اور اشاعت سے قبل اسے مطالعے کے لیے پیرس ہی میں مقیم بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق،سیرت نگار اور اسلام کے بین الاقوامی قانون پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے عالم باعمل ڈاکٹر محمد حمید اللہ(پیدائش فروری 1908،انتقال 17 دسمبر 2002ء) کی خدمت میں پیش کیا۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق مورس بکائیے نے صحیح بخاری کی منتخب سو روایات میں سے اٹھانوے روایات میں بیان کردہ سائنسی حقائق کو حرف بہ حرف درست قرار دیا۔ تاہم مندرجہ ذیل دو روایت پر انہیں اعتراض تھا کہ یہ سائنسی بنیادوں پر تسلیم نہیں کی جا سکتیں۔اول یہ کہ(مفہوم):’’ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے‘‘۔ثانیاً (مفہوم)’’ قبیلہ عرینہ کے وفد کی مدینے آمد کے بعد ایک مخصوص بیماری میں مبتلا ہونے پر ان کے لیے اونٹ کا پیشاب اوردودھ بطور دوا تجویز کرنا‘‘۔پہلی روایت پر ڈاکٹر موریس بکائیے کا اعتراض یہ تھا کہ مکھیاں تو بیماری پھیلاتی ہیں۔ان کے پروں میں شفا ہونا ممکن نہیں،جبکہ دوسری روایت میں اونٹ کے پیشاب کو بطوردوا تسلیم کرنے میں اسے تامل تھا۔
’’ڈاکٹر حمید اللہ نے موریس بکائیے سے کہا کہ میں نہ تو سائنس دان ہوں نہ میڈیکل ڈاکٹر ہوں، اس لیے میں آپ کے ان دلائل کے بارے میں سائنسی اعتبار سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک عام آدمی کے طور پر میرے کچھ شبہات ہیں جن کا آپ جواب دیں پھر اس تحقیق کو اپنے اعتراضات کے ساتھ ضرور شائع کر دیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے میٹرک میں سائنس کی ایک دو کتابیں پڑھی تھیں ،اس وقت مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سائنس دان جب تجربات کرتے ہیں تو اگر ایک تجربہ دو مرتبہ صحیح ثابت ہو جائے تو سائنس دان اسے پچاس فی صدر درجہ دیتا ہے اور جب تین چار مرتبہ صحیح ہو جائے تو اس کا درجہ اور بڑھ جاتا ہے اور چار پانچ مرتبہ کے تجربات میں بھی اگر کوئی چیز صحیح ثابت ہو جائے تو آپ کہتے ہیں فلاں بات سو فی صد صحیح ثابت ہو گئی ،حالاں کہ آپ نے سو مرتبہ تجربہ نہیں کیا ہوتا۔ ڈاکٹر موریس نے کہا کہ ہاں واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر چار پانچ تجربات کا ایک ہی نتیجہ نکل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ سو فی صد یہی نتیجہ ہے۔ اس پر ڈاکٹر حمیداللہ نے کہا جب آپ نے صحیح بخاری کے سو بیانات میں سے اٹھانوے تجربات درست قرار دے دیے ہیں تو پھر ان دو نتائج کو بغیر تجربات کے درست کیوں نہیں مان لیتے؟جب کہ پانچ تجربات کر کے آپ سو فی صد مان لیتے ہیں۔یہ بات تو خود آپ کے معیار کے مطابق غلط ہے۔ اس پر ڈاکٹر موریس بکائیے نے اسے تسلیم کیا کہ واقعی ان کا یہ نتیجہ اور یہ اعتراض غلط ہے۔دوسری بات ڈاکٹر حمید اللہ نے یہ کہی کہ میرے علم کے مطابق آپ میڈیکل سائنس کے ماہر ہیں، انسانوں کا علاج کرتے ہیں۔ آپ جانوروں کے ماہر تو نہیں ہیں تو آپ کو پتا نہیں کہ دنیا میں کتنے قسم کے جانور پائے جاتے ہیں؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں؟ کیا آپ نے کوئی سروے کیا ہے؟ دنیا میں کس موسم میں کس قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں؟ جب تک آپ عرب میں ہر موسم میں پائی جانے والی مکھیوں کا تجربہ کر کے اور ان کے ایک ایک جزو کا معائنہ کر کے لیبارٹری میں چالیس پچاس سال لگا کر نہ بتائیں کہ ان میں کسی مکھی کے پر میں کسی بھی قسم کی شفا نہیں ہے،اس وقت تک آپ یہ مفروضہ کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ مکھی کے پر میں بیماری یا شفا نہیں ہوتی۔ڈاکٹر مورس بکائیے نے اس سے بھی اتفاق کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ تحقیق کر کے ثابت کریں کہ مکھی کے پر میں شفا نہیں ہوتی تو یہ کیسے پتا چلے گا کہ چودہ سو سال پہلے ایسی مکھیاں نہیں ہوتی تھیں،ہو سکتا ہے ہوتی ہوں،ممکن ہے ان کی نسل ختم ہو گئی ہو۔جانوروں کی نسلیں تو آتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔روز کا تجربہ ہے کہ جانوروں کی ایک نسل آئی اور بعد میں وہ ختم ہو گئی۔ تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور خود سائنس دان بتاتے ہیں کہ فلاں جانور اس شکل اور فلاں اُس شکل کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر موریس بکائیے نے اسے بھی تسلیم کیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحبؒ نے کہا کہ میں بہ طور ایک عام آدمی کے یہ سمجھتا ہوں کہ بعض بیماریوں کا علاج تیزاب سے بھی ہوتا ہے۔دواؤں میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتے؟جانوروں کے پیشاب میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتا؟ ہو سکتا ہے کہ بعض علاج جو آج خالص اور آپ کے بقول پاک ایسڈ سے ہوتا ہے تو اگر عرب میں اس کا رواج ہو کہ نیچرل طریقے سے لیا ہوا کوئی ایسا لیکویڈ جس میں تیزاب کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو ،وہ بطور علاج کے استعمال ہوتا ہو تو اس میں کون سی بات بعید از مکان اور غیر سائنسی ہے۔پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج سے کچھ سال پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ایک انگریز سیاح تھا جو جزیرہ عرب کی سیاحت کر کے گیا تھا۔ اس کا نام ’’ڈاؤنی‘‘ تھا۔ اس نے عرب کا دورہ کیا تھا اور دو کتابیں لکھی تھیں، جو بہت زبردست سمجھی جاتی ہیں۔ ایک کا نام Arabia deserta اور دوسری کا نام Arabia Petra ہے۔یعنی جزیرہ عرب کا صحرائی حصہ اور جزیرہ عرب کا پہاڑی حصہ۔انہوں نے کہا کہ اس شخص نے اتنی کثرت سے یہاں سفر کیا ہے۔یہ اپنی یادداشت میں لکھتاہے کہ جزیرہ عرب کے سفر کے دوران ایک موقع پر میں بیمار پڑ گیا،پیٹ پھول گیا،رنگ زرد پڑ گیا اور مجھے زرد بخار کی طرح ایک بیماری ہو گئی، جس کا میں نے دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا، لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔آخرکار جرمنی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ جہاں تمہیں یہ بیماری لگی ہے وہاں جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں کوئی مقامی طریقہ علاج ہو یا کوئی عوامی انداز کا کوئی دیسی علاج ہو، کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو جس بدو کو میں نے خادم کے طور پر رکھا ہوا تھا اس نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ بیماری آپ کو کب سے ہے؟ میں نے بتایا کہ کئی مہینے ہو گئے ہیں اور میں بہت پریشان ہوں، اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلئے ، وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے جا کر کہا،آپ کچھ دن یہاں رہیں اور اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے سوا کچھ اور استعمال نہ کریں،چناں چہ ایک ہفتے تک یہ علاج کرنے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔مجھے حیرت ہے۔‘‘
ڈاکٹر حمید اللہ نے موریس بکائیے سے کہا یہ دیکھیے کہ 1925-26ء میں ایک مغربی مصنف کا لکھا ہوا ہے۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ سابق طریقۂ علاج ہو۔ موریس بکائیے نے اپنے دونوں اعتراضات واپس لے لیے اور اس مقالے کو انہوں نے اپنے دونوں اعتراضات کے بغیر ہی شائع کر دیا۔